۴ آذر ۱۴۰۳ |۲۲ جمادی‌الاول ۱۴۴۶ | Nov 24, 2024
News ID: 374788
29 نومبر 2021 - 22:49
تصاویر/ تجمع اعتراضی طلاب و روحانیون هندی در پی اهانت به ساحت مقدس پیامبر اسلام

ہندوستان کے برجستہ عالم دین و محقق حجۃ الاسلام و المسلمین مولانا سید نجیب الحسن زیدی نے ارتداد کیا ہے و مرتد کون؟ کے عنوان سے تحقیقی مقالہ تحریر کیا ہے جسے ہم قارئین کی خدمت میں ۳ قسطوں میں پیش کریں گے۔

تحریر: مولانا سید نجیب الحسن زیدی

حوزہ نیوز ایجنسی ارتداد ایک ایسا موضوع ہے جو ہر زمانے میں اہم رہا ہے اور اسکے سسلسلہ سے اہل فکر و نظر کے درمیان گفتگو رہی ہے ،دین و شریعت حقیقت میں دیکھا جائے تو جادہ حیات پر گامزن انسان کے لئے ایسا حصار قائم کرتے ہیں جسکے سبب انسان محفوظ انداز میں منزل کمال تک پہنچ جاتا ہے ، جس طرح عام شاہراہ پر اگر چلتے چلتے کوئی شخص الٹی طرف آنے لگے تو مجرم ہوتا ہے اور اسے سخت سزا دی جاتی ہے اس لئے کہ اس کی اس حرکت کی بنا پر دیگر چلنے والوں کو خطرہ ہے اسی طرح اگر طریق دین پر چلتے چلتے انسان واپس پلٹ جائے تو اس کے لئے بھی دین نے سخت سزا رکھی ہے یہاں انسان کی جان کو نہیں بلکہ انسان کی روح کو خطرہ لاحق ہے ۔دین و مذہب کا تقدس اس بات کا مطالبہ کرتا ہے کہ کوئی شخص اگر اس کے ساتھ کھلواڑ کرے تو اسے سخت سے سخت سزا دی جائے ورنہ کسی بھی دین کا تقدس قائم نہیں رہ سکے گا اور دنیا میں افراتفری کا ماحول پیدا ہو جائے گا یہاں پر بعض لوگ سخت سزا کو تو دیکھتے ہیں لیکن اس جرم کو نہیں دیکھتے جو ایک مرتد نے محض اپنے فائدے کے لئے انجام دیا ہے اگر جرم کی سنگینی پر توجہ کی جائے تو یقینا ایسا جرم جو معاشرے کے نظم و نسق کو درہم برہم کر دے اور انسان کو اس دین کو بازیچہ بنانے پر وادار کر دے جسکی چھاوں میں بشریت ارتقاء حاصل کرتی ہےاور اسے نجات ملتی ہے تو بے شک ہر انسان کہے گا کہ ایسے دل بدلوں کو سخت سے سخت سزا دی جائے جو اپنی خواہشات کی تکمیل کی خاطر دین کے تقدس سے کھیل جاتے ہیں ۔ اب سوال یہ ہوتا ہے کہ اگر کوئی اپنے دین سے پھر جاتا ہے تو ہم کیا کریں ہمارا وظیفہ کیا ہے ؟ چنانچہ ایک منکرِ دین و رسالت کی حالیہ ہرزہ سرائیوں کی بنا پر آج کل ہمارے معاشرے میں بہت سے لوگوں کے ذہنوں میں سوالات قائم ہو رہے ہیں کہ ہماری ذمہ داری ایسی صورت میں کیا ہے ؟ ایک مرتد کا حکم یوں تو واضح ہے لیکن بسا اوقات کچھ لوگوں کے ذہنوں میں یہ بات آتی ہے کہ ارتداد کی اتنی سخت سزا کیوں ہے کیا دیگر ادیان میں بھی ایسی سزائیں ہیں یا صرف اسلام ہی اتنی سخت سزا کا قائل ہے ؟ اگر کوئی مرتد ہو جائے تو کیا توبہ کا دروازہ اس پر ہمیشہ کے لئے بند ہو جاتا ہے ایسا ہے تو کیوں ؟ دائرہ اتداد کیا ہے ان سب سوالوں کے جوابات کے لئے بہت ہی مختصر طور پر ہم نے کوشش کی ہے مفہوم ارتداد کو واضح کر نے کے ساتھ اس بات کو بیان کیا جا سکے کہ بت پرستوں و مشرکین کے ساتھ مل کر توہین رسول و قرآن کرنے والےکسی بھی شاتم رسول کا اسلامی حکم کیا ہے ؟ اور قرآن کریم و روایات میں ارتداد کے آثار و نتائج و اسکی سزا کیا ہے ،بزرگ علماء و فقہاء دانشوروں نے اس بارے میں کیا کہا ہے امید کہ پیش نظر تحریر ارتداد کے سلسلہ سے کسی حد تک اجمالی آشنائی کا سبب قرار پائے گی ۔

ارتداد کے معنی اور اسکا مفہوم :
لغت میں ارتداد پلٹ جانے کو کہتے ہیں جبکہ اصطلاح میں دین اسلام سے خارج ہونے کو ارتداد کہا جاتا ہے اوراسلام سے پھر جانے والے شخص کو مُرْتَد کہتے ہیں۔

ارتداد کی اصطلاحی تعریف؛ یوں تو مختلف زاویوں سے کی گئی ہے لیکن ہم کہہ سکتے ہیں اسلام کو چھوڑ دینا ، ترک اسلام شرک بعد از اسلام یہ وہ تعریف ہے جسے بزرگ علماء نے اختیار کیا ہے2 اس کی وضاحت اس طرح کی جا سکتی ہے کہ جب کوئی مسلمان وجود خدا یا حقانیت پیغمبر صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم یا دین اسلام کی حقیقت کا منکر ہو جائے اور اسے خود ساختہ قرار دے یا پھر دینی مقدسات جیسےقرآن کی توہین کرے اہلبیت اطہار علیھم السلام کا مذاق اڑائے دین کے ضروری احکام جیسے نماز و روزہ، حج وغیرہ کا انکار کرے تواسکا مطلب ہے وہ اس دین سے پھر گیا ہے جسے وہ مانتا تھا اگر اس دین کو مان رہا ہوتا تو کھلم کھلا دین کا مذاق نہ اڑاتا اور ضروریات مذہب کا انکار نہ کرتا ۔ یہی وجہ ہے اسلام کی نظر میں شدید ترین گناہ یہی ارتداد ہے4۔

ارتداد کی قسمیں :
جو بھی شخص دین سے پھر رہا ہے یا دین کا مذاق اڑا رہا ہے اور ضروریات دین کا منکر ہے اسکی دو قسمیں ہو سکتی ہیں یا اسکا ارتداد ملی ہے یا فطری اسی لئے کہا جاتا ہے یا یہ مرتد ملی ہے یا فطری ۔

مرتد فطری اور ملی کی تعریف:
مرتد فطری اس شخص کو کہا جاتا ہے جو پیدائشی طور پر مسلمان ہو5؛ یعنی اس کے والدین یا ان میں سے کوئی ایک مسلمان ہو6۔ مرتد ملی اس شخص کو کہا جاتا ہے جس کے ماں باپ یا ان میں سے کوئی ایک مسلمان نہ ہو لیکن کوئی وہ خود بالغ ہونے کے بعد اسلام قبول کرے اور پھر بعد میں اسلام سے پھر جائے7 ۔

ارتداد کا تاریخی سابقہ :
ارتداد کوئی آج کا نیا مسئلہ نہیں ہے اس سے پہلے بھی ایسے افراد رہے ہیں جنہوں نے اسلام قبول کیا پھر دین سے خارج ہو گئے چنانچہ تاریخی کتب میں ارتداد کے بہت سے نمونے ہیں8۔قبائل بنوحنفیه، بنو مدلج وبنو اسد یہ ایسے قبیلے ہیں جو اپنے قبیلے کے سردار کے دائرہ اسلام سے خارج ہونے کی وجہ سے خود بھی اسلام سے خارج ہو گئے ، سجاع بنت حارث‏تمیمى جس نے بعد میں مسیلمه سے شادی کی یہ طلحه بن خویلد جو قبیله غطفان و بنى‏فزاره کے ساتھ مسلمانوں کے ساتھ جنگ کے بعد بھاگ کھڑے ہوئے اور شام کی طرف چلے گئے یہ سب بھی مرتدین کے بڑے نمونوں میں ہیں9۔ ابو الحصین‌ انصاری کے دو بیٹوں10 کو ارتداد کے نمونوں کے طور پر پیش کیا جاتا ہے یہ دونوں عیسائیوں کی ایک جماعت کی جانب سے ان کے کان بھرنے کی بنا پر اسلام سے خارج ہو کر اپنے اختیار سے عیسائی بن گئے تھے جسکے نتیجہ میں حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے نے ان پر لعنت بھیجی اور انکے لئے بد دعاء ی کی۔ یہ وہ لوگ ہیں جنہیں سب سے پہلے مرتد افراد گنا جاتا ہے ۔ طرح عُقبۃ اَبی‌مُعیط بھی اسی طرح آغاز اسلام میں مرتد لوگوں میں شمار ہوتے ہیں جن کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ قریش کے بزرگوں میں انکا شمار ہوتا ہے لیکن یہ وہ فرد ہے جس نے حضورسرورکائنات صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے ساتھ کھانا کھانے کیلئے کلمہ پڑھا اور چند روز کے بعد اپنے دوست کی کے بہکاوے میں آکر حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم پر پر لعاب دہن تھوک دیا مرتد ہو گیا۔ رسول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے جنگ بدر میں اسکی گرفتاری کے بعد اس کے قتل کا حکم صادر کیا۔ اسی طرح ام‌ُّحَکَم بنت ابوسفیان اور ام سلمہ کی بہن فاطمہ رسول خداؐ کے زمانے کی مرتد خواتین میں سے ہیں۔ اگرچہ ام‌حکم فتح مکہ کے موقع پر دوبارہ مسلمان ہو گئی۔سید عبدالکریم موسوی اردبیلی نے اپنی کتاب فقہ الحدود و التعزیرات میں نبی اکرم اور آئمہ کے زمانے کے مرتد مرد و خواتین کی مثالیں ذکر کی ہیں صاحبان ذوق تفصیل سے وہاں پر دیکھ سکتے ہیں کہ کون کون لوگ کیوں اور کن محرکات کی بنا پر مرتد ہوئے ۔

مرتد ملی و فطری کی سزا :
فقہا کے مشہور قول کے مطابق مرتد فطریِ کی سزا قتل ہے11 جبکہ مرتد ملی کے سلسلہ سے مشہور نظر یہ ہے کہ اگر دین سے پھرنے کا عمل مرد کی جانب سے ہو تو اسے لوٹ آنے کی فرصت دی جائے گی اگر وہ توبہ نہ کرے توہی قتل کیا جائے گا لیکن یہ کام کسی عورت نے کیا ہے تو خواہ وہ مرتد ملی ہو یا فطری، اس کی سزا قتل نہیں ہے جب تک وہ توبہ نہیں کرتی ہے اسے قید میں رکھا جائے گا12۔البتہ یہاں پر قتل کے سلسلہ سے بعض فقہا کے نظریات مختلف ہیں اور وہ دونوں جگہ توبہ کی بات کرتے ہیں چاہے فطری ہو یا ملی 13۔ قابل ذکر ہے عامہ کے یہاں غالبا دونوں ہی طرح کے ارتداد میں کوئی خاص فرق نہیں رکھا گیا ہے اور دونوں ہی کی سزا قتل ہے14۔

ارتداد کے شرائط :
اگر کوئی شخص کوئی ایسی بات کرے جس سے ظاہر ہو کہ اب وہ جس دین میں تھا اسکی حرمت کا قائل نہیں ہے یا کوئی ایسا کام کرے جس سے پتہ چلے کہ اسکا دین سے تعلق نہیں ہے اور یہ دین کو مانتا ہی نہیں ہے یہ دونوں ہی چیزیں ارتداد کو ثابت کرنے کے لئے کافی ہیں یعنی یا تو زبان سے کوئی شخص ایسی بات کہے جو دین اسلام سےنکل جانے کو بیان کرے جیسے خدا، پیغمبر (ص) کی نبوت یا دین اسلام کی حقانیت کا انکار کرے 15۔ یاد رہے کہ ضروریات دین کا انکار بھی اسی زمرے میں آتاہے اور ضروریات دین اس چیز کو کہا جاتا ہے جسے تمام مسلمان قبول کرتے ہوں اور اس کے ثابت کرنے کے لئے دلیل کی ضرورت نہ ہو جیسے نماز کا واجب ہونا و روزہ اور حج کا فرض ہونا وغیرہ16 ۔
اسی طرح عملی طور پر کوئی کفرآمیز کام کو جان بوجھ کر اور اس کام کے کفریہ ہونے کو جانتے ہوئے انجام دے مثلا بت کو سجدہ کرے، یا خدا کے علاوہ کسی اور چیز کی پرستش کرے یا دینی مقدسات جیسے قرآن و کعبہ کی کھلم کھلا توہین کرے 17۔
ارتداد کے لئے شریعت نے عقل، بلوغ، قصد و اختیار کو ارتداد کے تحقق کی شرائط میں ضروری جانا ہے یعنی اگر کوئی غیر بالغ کسی ایسی چیز کو زبان پر لائے جو ارتداد کا سبب ہے یا کوئی دیوانہ شخص قول و عمل سے کچھ ایسا کرے جس سے ارتدادلازم آئے تو وہ مرتد نہیں کہلائے گا اسی طرح اگر کسی کا اختیار و قصد نہ ہو اور وہ بغیر قصد و اختیار کے مجبوری میں ایسی باتیں کریں جس سے ظاہر ہو کہ اپنے دین سے پھر رہا ہے تو یہاں پر بھی اسے مرتد نہیں کہا جائے گا چنانچہ کسی مجبوری کی وجہ سے کوئی کفر بک رہا ہے تو وہ بھی مرتد نہیں کہلائے گا ۔

جاری ہے ….

حوالہ

1، مفردات راغب، الارتداد والرده الرجوع فى الطریق الذى‏جاء منه لکن الرده تختص بالکفروالارتداد یستعمل فیه وفى غیره قال الله‏تعالى: (ان الذین ارتدوا على‏ادبارهم) وقال: (یا ایها الذین امنوا من‏یرتد منکم عن دینه) وهو الرجوع من‏الاسلام الى الکفر وکذلک (من یرتدد منکم عن‏دینه فیمت وهو کافر، خلیل بن احمد فراہیدیوالرده مصدر الارتداد عن الدین والرده‏تقاعس فى الزقن وان کان فى الوجه بعض‏القباحه ویعتریه شى‏ء من جمال یقال: هى‏جمیله ولکن فى وجهها بعض الرده ، العین،احمد بن محمد المقرى
ارتد الشخص رد نفسه الى الکفر والاسم الرده.المصباح المنیر) ، طریحى المرتد من ارتد عن الاسلام الى الکفروهو نوعان فطرى وملى... والرده بالکسروالتشدید اسم من الارتداد، واصحاب الرده‏على ما نقل کانوا على صنفین: صنف‏ارتدوا عن الدین وکانوا طائفتین‏احدهما اصحاب مسیلمه والاخرى ارتدواعن الاسلام وعادوا الى ما کانوا علیه فى‏الجاهلیه... والصنف الثانى لم یرتدوا عن‏الایمان ولکن انکروا فرض الزکوه وزعمواان (خذ من اموالهم) خطاب خاص بزمانه(ص مجمع البیان تاج العروس, ج450/4 لسان العرب; المصباح المنیر المجمل ،شہید ثانی، حاشیۃالارشاد، ۱۴۱۴ق، ج۴، ص۲۸۵؛ موسوی اردبیلی، فقہ الحدود و التعزیرات، ۱۴۲۷ق، ج۴، ص۴۴-۴۶۔، خویی، تکملۃالمنہاج، ۱۴۱۰ق، ص۵۳؛ وحید خراسانی، منہاج‌الصالحین، ۸۱۴۲ق، ج۳، ص۵۰۰؛ موسوی اردبیلی، فقہ الحدود و التعزیرات، ۱۴۲۷ق، ج۴، ص۴۴-۴۶۔، امام خمینى، تحریر الوسیله، ج2، ص 366؛ ابن قدامه، المغنى، ج 10، ص 74.

2۔قطع الاسلام, الرجوع عن الاسلام, كفر المسلم, اظهار شعار الكفر بعد الايمان, الخروج عن الاسلام والكفر بعد الاسلام. ارشاد الاذهان, ج1 8 9/2.دروس, ج51/2.
ذلک لانّ الحکم بکفر منکر الضرورى کالصلّوة انّما هو باعتبار أنّ من نشأ بین المسلمین و عاشر هم یعلم بدیهة وجوب الصلوة فى شرعنا و اخبار نبّینا فانکاره لا یحتمل ان یکون باعتبار انکار اخبار النبّى(ص) به بل لیس منشأه الاّ عدم الایمان و التّصدیق بالنبى.

3۔حاشیه خوانسارى بر شرح لمعه 24/,چاپ سنگى .

4۔مسالک الافهام، شهید ثانى، ج 15، ص 22

5۔رجل ولد علی الإِسلام ثمّ کفر و أَشرک.تهذیب الاحکام، ج 10، ص 139 و وسائل الشیعه، ج 28، ص 325

6۔محقق حلی، شرایع‌الاسلام، ۱۴۰۸ق، ج۴، ص۱۷۰. بعض فقها ولادت کے وقت والدین میں سے کسی ایک کے مسلمان هونے کو شرط جانتے هیں (خویى، مبانى تکلمة المنهاج، ج2، ص 451) اور بعض دوسرے فقها بالغ هونے کے بعد اسلام کا اظهار شرط نهیں جانتے هیں (شهید ثانى، مسالک الافهام، ج2، ص 451). تفصیل کے لئے ملاحظہ ہو : صادقى فدکى، جعفر، ارتداد، بازگشت به تاریکى: نگرشى به موضوع ارتداد از نگاه قرآن کریم، 1جلد، بوستان کتاب قم (انتشارات دفتر تبلیغات اسلامى حوزه علمیه قم) - ایران - قم، چاپ: 1، 1388 ه.ش.

7۔ امام خمینى، تحریر الوسیله، ج2، ص 336.، محقق حلی، شرایع‌الاسلام، ۱۴۰۸ق، ج۴، ص۱۷۱۔

8تفصیل کے لئے ملاحظہ ہو : صادقی فدکی، سیدجعفر، ارتداد؛ بازگشت بہ تاریکی؛ نگرشی بہ موضوع ارتداد از نگاہ قرآن کریم، قم، مؤسسہ بوستان کتاب، چاپ اول، ۱۳۸۸ش.، ص۲۹۳.

9۔ تاریخ طبرى، ج‏2، ص‏149 ، کتاب الرده، واقدى، ص‏144 ,تاریخ خلیفه بن خیاط، ص‏117 .

10۔ تفصیل کے لئے ملاحظہ ہو : صادقی فدکی، سیدجعفر، ارتداد؛ بازگشت بہ تاریکی؛ نگرشی بہ موضوع ارتداد از نگاہ قرآن کریم، قم، مؤسسہ بوستان کتاب، چاپ اول، ۱۳۸۸ش.، ص۲۹۳.

11۔ محقق حلی، شرایع‌الاسلام، ۱۴۰۸ق، ج۴، ص۱۷۰و۱۷۱. امام خمینى، تحریر الوسیله، ج2، ص ۴۹۴.

12۔ اذا ارتدَّت المرأة عن الاسلام، لم تقتل و لکن تحبس أَبداً۔ تهذیب الاحکام، ج 10، ص 142 و وسائل الشیعه، ج 28، ص 327 ، نجفی، محمدحسن، جواہر الکلام فی شرح شرائع الاسلام، تصحیح عباس قوچانی علی آخوندی، داراحیاء التراث العربی، بیروت، ۱۴۰۴ق.ج۴۱، ص۶۱۱و۶۱۲.

13۔ فیاض کابلی، رسالہ توضیح‌المسائل، ۱۴۲۶ق، ص۶۲۶.،موسوی اردبیلی، فقہ الحدود و التعزیرات، ۱۴۲۷ق، ج۴، ص۱۵۱.

14۔ الفقه على المذاهب الاربعه، ج 5، ص 422، و کفایة الاخبار، ج 2، ص 223، و القوانین الفقهیة ابن جزى، ص 239.

15۔ موسوی اردبیلی، فقہ الحدود و التعزیرات، ۱۴۲۷ق، ج۴، ص۴۷.، ارشاد الاذهان, ج1 8 9/2.. دروس, ج51/2.. مجمع الفائدة و البرهان,ج313/13.8 . الاقناع 520/.

16۔ مؤسسہ دایرۃالمعارف فقہ اسلامی، فرہنگ فقہ، ۱۳۹۲ش، ج۵، ص۱۴۶.

17۔ تحریر الوسیله، ج 2، ص 496؛ الموسوعة الفقهیة، ج 2، ص 15 والمغنى، ج 10، ص 106

لیبلز

تبصرہ ارسال

You are replying to: .